اخوان المسلمون: ’سیاسی اسلام‘ کی نمائندہ سب سے بڑی تنظیم اقتدار ختم ہونے کے آٹھ سال بعد کہاں کھڑی ہے؟
مصر میں اپنی حکومت کے خاتمے کے آٹھ سال بعد اخوان المسلمون اپنے مستقبل کے لیے ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جو اپنے ارکان کی سلامتی اور اس کی سرگرمیوں کے تسلسل کی ضمانت دیتی ہو تاکہ حتمی عدالتی فیصلے کے تحت اس کے متعدد رہنماؤں کو سنائی گئی سزائے موت سے بچایا جا سکے۔
مصر اور اس کا قانون اخوان کے ارکان کو سرکاری اداروں سے برطرف کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس دوران مصر کے ساتھ ان ممالک کے تعلقات میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، جس نے عرب دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کی نمائندہ اس سب سے بڑی تنظیم کی بھرپور حمایت کی ہے۔
انتہائی حساس مرحلہ
اخوان المسلمون کے امور پر نظر رکھنے والوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس گروپ کے قائم مقام رہنما محمود عزت کی گرفتاری کے بعد، گذشتہ پانچ ماہ کے دوران مارچ کا مہینہ ‘انتہائی حساس’ سمجھا جاسکتا ہے۔
اس کے میڈیا پروگرامز کا ترکی سے نشر ہونا جاری ہے جبکہ مصر اور متعدد عرب ممالک میں اس کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں پر سخت پابندی برقرار ہے۔
اخوان المسلمون کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ، ابراہیم منیر جو لندن میں رہتے ہیں اور رہنماؤں کی قید کے بعد اس گروپ کے رہنما کے طور پر کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ قطر اور ترکی کی حکومتوں کے مصری حکومت کے ساتھ تعلقات کے باوجود اس گروپ کا قطر اور ترکی کے ساتھ اپنا متوازی تعلق برقرار رہے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک میں گروپ کے عناصر حکومت اور قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور اُس کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے قطر اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں کوئی بڑی چیز بدلے گی۔’
تاہم ترکی میں اخوان المسلمون کے متعدد ارکان نے اپنی ذاتی ویب سائٹس پر کئی سطحوں پر حکام کے ساتھ اپنے معاملات میں واضح تبدیلی کے بارے میں مواد شائع کیا ہے، جس سے ان میں سے کچھ ترکی اور ترکی کے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کی توقع میں دوسرے ممالک کی طرف جانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے، جو اب بھی اپنے نظریاتی مقصد سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔
مصر میں حزب اختلاف کی دو معروف شخصیات، محمد ناصر اور معتز متر، جو ترکی میں مقیم ہیں، نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ترک حکام کی درخواست کے بعد سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں پر ان کے پروگرام رک گئے ہیں۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مصر اور ترکی کے مابین ہونے والی بات چیت کو کچھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گذشتہ جنوری میں مصر اور قطر کے مابین سفارتی تعلقات بحال کیے جا رہے ہیں۔
قطر نے اخوان المسلمون کے سینکڑوں حامیوں کو پناہ بھی دی ہے جو سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے وہاں مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔
اسلامی گروہوں کے امور کے محقق احمد سلطان کا خیال ہے کہ چینلز کی میزبانی میں خاص طور پر ترکی اس گروپ کا سب سے بڑا مرکز تھا اور زیادہ تر ایسے قائدین کے لیے جن کی اکثریت مصر اور دوسرے ممالک میں دہشت گردوں کی فہرستوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو مزید کہا کہ ‘ترکی اور مصر کے تعلقات کی بہتری کا (اخوان پر) اثر ضرور پڑے گا، لیکن اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اس گروپ میں پہلی صف کے بیشتر رہنماؤں نے ترک شہریت حاصل کی اور اس کے بعد ترکی کے لیے ان کو مصر کے حوالے کرنا مشکل ہوگا۔ ان پر ترکی قوانین کا اطلاق ہو گا، اسی طرح دوسری صف کے رہنما اور چند سو دیگر مصری اخوانیوں جنھوں نے اقوام متحدہ سے سیاسی پناہ حاصل کی ہے، وہ بھی فی الحال ترکی میں رہ رہے ہیں۔
سلطان کا خیال ہے کہ اگر تعلقات میں بہتری آئے اور ان کے لیے فریم ورک اور اصول طے کیے جائیں گے تو ترکی ان اخوانی رہنماؤں کے ساتھ ‘انسانی بنیادوں’ پر معاملات طے کرے گا بشرطیکہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے یا ان معاملات میں جو مصر کے ساتھ تعلقات میں پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسلامی گروہوں کے امور کے محقق مہر فرغلی کا کہنا ہے کہ اخوان کی ترکی اور قطر کے علاوہ اور بھی پناہ گاہیں ہیں کیونکہ گذشتہ برسوں کے دوران انھوں نے اپنے کچھ ارکان کو ملائیشیا، ایران اور جنوبی افریقہ سمیت متعدد ممالک میں منتقل کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ گروپ میڈیا کی تنظیم نو پر کام کر رہا ہے تاکہ وہ دوسرے ممالک سے سیٹلائٹ چینلز لانچ کرے اور روایتی میڈیا جیسے کلب ہاؤس کے ذریعے زیادہ سوشل میڈیا پر انحصار کرے۔
سزائے موت: ایک ‘انتہائی اقدام’
اگرچہ اخوان کے بہت سارے رہنما اور اراکین بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم مصری حکام نے جولائی 2013 میں اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان کے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
منصوریہ کہلانے والے سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ پر بم دھماکے کے بعد مصری حکومت نے سنہ 2013 کے آخر سے ہی اس گروپ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا، اس کے بعد سنہ 2014 میں نافذ کیے گئے ایک قانون کے مطابق عدالتی احکامات جاری کیے گئے تھے جس میں اس گروپ اور اس کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو دہشت گرد شخصیات اور دہشت گرد تنظیموں کی فہرستوں میں شامل کیا گیا تھا۔
اور حال ہی میں، یعنی 14 جون کو قانونی چارہ جوئی کے بعد بھی عدالت نے اخوان رہنماؤں، عبدالرحمان البر، صفوت حجازی، محمد البلتاجی، اسامہ یاسین اور احمد عارف سمیت 12 اخوان کے رہنماؤں کی سنہ 2013 کے واقعات میں ملوث ہونے کی پاداش میں ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
قتل، پھانسیاں اور قیدوبند، اخوان المسلمین کی مختصر تاریخ
مصر: دھرنے میں شامل 75 افراد کو سزائے موت
سابق مصری صدر مرسی کے بیٹے عبداللہ کی شخصیت کیسی تھی؟
مصر کے ’جلاوطن‘ ٹی وی چینلز کو ترکی میں بھی مشکلات کیوں؟
فرغلی کو توقع نہیں ہے کہ سزائے موت پر اگر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ اخوان کے تسلسل کو متاثر کرے گی، اور اس کا خیال ہے کہ اگر ماضی میں اس گروہ نے اس طرح کے فیصلوں اور فیصلوں کا جواب دینے کے لیے تشدد کے استعمال پر انحصار کیا تو وہ مرحلہ ختم ہوچکا ہے کیونکہ اس کے ان پر ‘تباہ کن’ نتائج مرتب ہوئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ گروپ کے باقی ممبروں کو جیل کے اندر یا باہر رکھنے کے لیے ‘تاخیر’ کی پالیسی پر بھروسہ کرتے ہیں، لہٰذا وہ تشدد کی پالیسی سے گریز کریں گے۔
عدالت کے ان فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے، گروپ کے ترجمان طلعت فہمی نے اس وقت ٹیلیویژن بیانات میں کہا تھا کہ ‘سزائے موت نہ کسی کی موت کو قریب لے آتی ہے اور نہ اس کے خاتمے سے کسی کی عمر بڑھ جاتی ہے۔’
فرغلی نے بتایا کہ قاہرہ ان احکام کو سنگین جرائم کے لیے ‘انتہائی اقدام’ کے طور پر دیکھتا ہے۔
‘گروپ کا سب سے کمزور معاملہ’
فرغلی کا خیال ہے کہ اخوان المسلمون اس وقت مصر میں سب سے کمزور ترین وقت سے گزر رہے ہیں۔ لیکن جو چیز اس کی طاقت کا تعین کرتی ہے وہ اس کی بیرون ملک موجودگی اور دارالحکومت میں اپنے حامیوں کو محفوظ بنانے، عوام کو متحرک کرنے اور اس میں نئے عناصر شامل کرنے کی صلاحیت ہے، جو اخوان المسلمون کے لیے بہت اہم بات ہے۔
مصر کے اندر اور باہر حزب اختلاف کی افواج کے ساتھ تعلقات کے بارے میں، منیر کا کہنا تھا کہ مصری اپوزیشن کا مصر میں افواج کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، لیکن وہ بیرون ملک حزب اختلاف کے ساتھ رابطے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا کہ وہ ‘ان کے اور گروپ کے مابین کام کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
اور اب گروپ کی صورتحال کے بارے میں منیر کہتے ہیں کہ ‘ہم مہاجر ہیں اور قید میں ہیں۔‘
مصری پارلیمنٹ نے ایک نئے قانون کے مسودے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ‘اخوان المسلمون تنظیم’ سے تعلق رکھنے والے مصری ریاست کی کسی بھی انتظامی تنظیم کے کسی بھی اہلکار کو ملازمت سے برطرف کیا جا سکے گا۔
قانون کے مسودے کے مطابق، اگر کوئی ملازم اپنی ملازمت کے فرائض کی خلاف ورزی کرتا ہے، اگر اس سے ریاست یا اس کے معاشی مفادات میں کسی عوامی افادیت کو یا ملک کی حفاظت کو شدید نقصان پہنچے تو اس کے خلاف انضباطی کارروائی کے علاوہ اُسے ملازمت سے برخاست کیا جاسکتا ہے۔ کارکنوں کو ‘دہشت گردوں’ کی فہرست میں شامل کرنا ایک انتہائی سنگین بات ہے۔
گروپ کے رہنما بیرون ملک مصر کے اندر اپنے ممبروں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حال ہی میں مصری حکومت کی جانب سے لیے گئے سخت سیکیورٹی اقدامات کی وجہ سے اس گروپ کے ممبروں کی سرگرمیاں بہت ہی محدود ہو گئی ہیں۔ تاہم اخوان کی قیادت بیرون ملک مقیم گروپ کے ممبروں کو جس بھی ملک میں وہ رہتے ہیں، اُس کے قوانین کا احترام کرنے کا کہتی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اپنے حالات میں رہتے ہوئے اپنی نظریاتی سرگرمیاں بھی جاری رکھنے کی تاکید کرتی ہے۔
Comments are closed.